report Soofi.Nooruddin
سیدنا مولی علیؓ کا قول جلیل کہ تمام علوم قرآن بسم اللہ کی ”ب“ اور پھر ”ب“ کہ تمام علوم اس کے نقطہ ”.“ میں ہیں اور پھر اس نقطہ کی تفسیر میں جو آپ نے اپنی علمی عظمت بیان کی وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔
یہ بھی ایک قول ہے کہ وہ نقطہ میں ہوں۔
اگر ہم گندم کہ دانہ کو نقطہ فرض کریں تو وہ اپنے اندر کتنے خوشے ۔ دانہ ۔ شاخیں ۔ جڑیں ۔ المختصر کتنی نسلیں چھپاۓ ہوۓ جو اسکے نسب کو تاقیامت لے کر چلیں گی۔
ستارے بلندی سے نقطہ کی مانند دیکھاٸی دیتے ہیں۔ اگر انسان افلاک سے پرے اس بلندی پہ ہو کہ ساری کاٸنات نقطہ کی مانند دیکھاٸی دے جیسا کہ رسول اللہﷺ کا شب معراج جہت سے نکل جانا۔ تو پھر اس نقطہ کی شرح کیسے نہ بیان ہوگی کہ اسمیں عرش تا فرش کیا کیا حقاٸق ہیں۔
پس ایسے ہی نقطہ ”کن“ ”فیکون“ ہے اور ایسے ہی نقطہ ”ب“ ہے کہ جب اہل نظر اسمیں نظر کرتے ہیں تو انہیں اس نقطہ کا اول سے آخر پورا نسب دیکھاٸی دیتا ہے۔ یہ اصول ہے۔ پورا قرآن اصول ہے۔
اور یہی مراد مولی علی شیر خداؓ ہے اس قول جلیل کی۔ اور یہی مراد سیدنا شیخ عبدالقادرجیلانیؓ ہے کہ
نَظَرْتُ الیٰ بَلاَد اللہِ جَمعاً
کخردَلَۃ عَلیٰ حکمِ اتصَّالی
دیکھتا ہوں کل خدا کی کائنات سامنے میرے ہیں پوری شش جہات سے جیسے سب جہاں رائی کا دانہ بے۔
ان شاء اللہ، جلد موضوع قرآن کا آغاز ہو گا۔